پَیدایش 37
یوسف کے خواب
1یعقوب ملکِ کنعان میں رہتا تھا جہاں پہلے اُس کا باپ بھی پردیسی تھا۔ 2یہ یعقوب کے خاندان کا بیان ہے۔
اُس وقت یعقوب کا بیٹا یوسف 17 سال کا تھا۔ وہ اپنے بھائیوں یعنی بِلہاہ اور زِلفہ کے بیٹوں کے ساتھ بھیڑبکریوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ یوسف اپنے باپ کو اپنے بھائیوں کی بُری حرکتوں کی اطلاع دیا کرتا تھا۔
3یعقوب یوسف کو اپنے تمام بیٹوں کی نسبت زیادہ پیار کرتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ تب پیدا ہوا جب باپ بوڑھا تھا۔ اِس لئے یعقوب نے اُس کے لئے ایک خاص رنگ دار لباس بنوایا۔ 4جب اُس کے بھائیوں نے دیکھا کہ ہمارا باپ یوسف کو ہم سے زیادہ پیار کرتا ہے تو وہ اُس سے نفرت کرنے لگے اور ادب سے اُس سے بات نہیں کرتے تھے۔
5ایک رات یوسف نے خواب دیکھا۔ جب اُس نے اپنے بھائیوں کو خواب سنایا تو وہ اُس سے اَور بھی نفرت کرنے لگے۔ 6اُس نے کہا، ”سنو، مَیں نے خواب دیکھا۔ 7ہم سب کھیت میں پُولے باندھ رہے تھے کہ میرا پُولا کھڑا ہو گیا۔ آپ کے پُولے میرے پُولے کے ارد گرد جمع ہو کر اُس کے سامنے جھک گئے۔“ 8اُس کے بھائیوں نے کہا، ”اچھا، تُو بادشاہ بن کر ہم پر حکومت کرے گا؟“ اُس کے خوابوں اور اُس کی باتوں کے سبب سے اُن کی اُس سے نفرت مزید بڑھ گئی۔
9کچھ دیر کے بعد یوسف نے ایک اَور خواب دیکھا۔ اُس نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”مَیں نے ایک اَور خواب دیکھا ہے۔ اُس میں سورج، چاند اور گیارہ ستارے میرے سامنے جھک گئے۔“ 10اُس نے یہ خواب اپنے باپ کو بھی سنایا تو اُس نے اُسے ڈانٹا۔ اُس نے کہا، ”یہ کیسا خواب ہے جو تُو نے دیکھا! یہ کیسی بات ہے کہ مَیں، تیری ماں اور تیرے بھائی آ کر تیرے سامنے زمین تک جھک جائیں؟“ 11نتیجے میں اُس کے بھائی اُس سے بہت حسد کرنے لگے۔ لیکن اُس کے باپ نے دل میں یہ بات محفوظ رکھی۔
یوسف کو بیچا جاتا ہے
12ایک دن جب یوسف کے بھائی اپنے باپ کے ریوڑ چَرانے کے لئے سِکم تک پہنچ گئے تھے 13تو یعقوب نے یوسف سے کہا، ”تیرے بھائی سِکم میں ریوڑوں کو چَرا رہے ہیں۔ آ، مَیں تجھے اُن کے پاس بھیج دیتا ہوں۔“ یوسف نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے۔“ 14یعقوب نے کہا، ”جا کر معلوم کر کہ تیرے بھائی اور اُن کے ساتھ کے ریوڑ خیریت سے ہیں کہ نہیں۔ پھر واپس آ کر مجھے بتا دینا۔“ چنانچہ اُس کے باپ نے اُسےوادیِ حبرون سے بھیج دیا، اور یوسف سِکم پہنچ گیا۔
15وہاں وہ اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔ آخرکار ایک آدمی اُس سے ملا اور پوچھا، ”آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟“ 16یوسف نے جواب دیا، ”مَیں اپنے بھائیوں کو تلاش کر رہا ہوں۔ مجھے بتائیں کہ وہ اپنے جانوروں کو کہاں چَرا رہے ہیں۔“ 17آدمی نے کہا، ”وہ یہاں سے چلے گئے ہیں۔ مَیں نے اُنہیں یہ کہتے سنا کہ آؤ، ہم دوتین جائیں۔“ یہ سن کر یوسف اپنے بھائیوں کے پیچھے دوتین چلا گیا۔ وہاں اُسے وہ مل گئے۔
18جب یوسف ابھی دُور سے نظر آیا تو اُس کے بھائیوں نے اُس کے پہنچنے سے پہلے اُسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ 19اُنہوں نے کہا، ”دیکھو، خواب دیکھنے والا آ رہا ہے۔ 20آؤ، ہم اُسے مار ڈالیں اور اُس کی لاش کسی گڑھے میں پھینک دیں۔ ہم کہیں گے کہ کسی وحشی جانور نے اُسے پھاڑ کھایا ہے۔ پھر پتا چلے گا کہ اُس کے خوابوں کی کیا حقیقت ہے۔“
21جب روبن نے اُن کی باتیں سنیں تو اُس نے یوسف کو بچانے کی کوشش کی۔ اُس نے کہا، ”نہیں، ہم اُسے قتل نہ کریں۔ 22اُس کا خون نہ کرنا۔ بےشک اُسے اِس گڑھے میں پھینک دیں جو ریگستان میں ہے، لیکن اُسے ہاتھ نہ لگائیں۔“ اُس نے یہ اِس لئے کہا کہ وہ اُسے بچا کر باپ کے پاس واپس پہنچانا چاہتا تھا۔
23جوں ہی یوسف اپنے بھائیوں کے پاس پہنچا اُنہوں نے اُس کا رنگ دار لباس اُتار کر 24یوسف کو گڑھے میں پھینک دیا۔ گڑھا خالی تھا، اُس میں پانی نہیں تھا۔ 25پھر وہ روٹی کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ اچانک اسمٰعیلیوں کا ایک قافلہ نظر آیا۔ وہ جِلعاد سے مصر جا رہے تھے، اور اُن کے اونٹ قیمتی مسالوں یعنی لادن، بلسان اور مُر سے لدے ہوئے تھے۔ 26تب یہوداہ نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”ہمیں کیا فائدہ ہے اگر اپنے بھائی کو قتل کر کے اُس کے خون کو چھپا دیں؟ 27آؤ، ہم اُسے اِن اسمٰعیلیوں کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ پھر کوئی ضرورت نہیں ہو گی کہ ہم اُسے ہاتھ لگائیں۔ آخر وہ ہمارا بھائی ہے۔“
اُس کے بھائی راضی ہوئے۔ 28چنانچہ جب مِدیانی تاجر وہاں سے گزرے تو بھائیوں نے یوسف کو کھینچ کر گڑھے سے نکالا اور چاندی کے 20 سِکوں کے عوض بیچ ڈالا۔ اسمٰعیلی اُسے لے کر مصر چلے گئے۔
29اُس وقت روبن موجود نہیں تھا۔ جب وہ گڑھے کے پاس واپس آیا تو یوسف اُس میں نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اُس نے پریشانی میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ 30وہ اپنے بھائیوں کے پاس واپس گیا اور کہا، ”لڑکا نہیں ہے۔ اب مَیں کس طرح ابو کے پاس جاؤں؟“ 31تب اُنہوں نے بکرا ذبح کر کے یوسف کا لباس اُس کے خون میں ڈبویا، 32پھر رنگ دار لباس اِس خبر کے ساتھ اپنے باپ کو بھجوا دیاکہ ”ہمیں یہ ملا ہے۔ اِسے غور سے دیکھیں۔ یہ آپ کے بیٹے کا لباس تو نہیں؟“
33یعقوب نے اُسے پہچان لیا اور کہا، ”بےشک اُسی کا ہے۔ کسی وحشی جانور نے اُسے پھاڑ کھایا ہے۔ یقیناً یوسف کو پھاڑ دیا گیا ہے۔“ 34یعقوب نے غم کے مارے اپنے کپڑے پھاڑے اور اپنی کمر سے ٹاٹ اوڑھ کر بڑی دیر تک اپنے بیٹے کے لئے ماتم کرتا رہا۔ 35اُس کے تمام بیٹے بیٹیاں اُسے تسلی دینے آئے، لیکن اُس نے تسلی پانے سے انکار کیا اور کہا، ”مَیں پاتال میں اُترتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کے لئے ماتم کروں گا۔“ اِس حالت میں وہ اپنے بیٹے کے لئے روتا رہا۔
36اِتنے میں مِدیانی مصر پہنچ کر یوسف کو بیچ چکے تھے۔ مصر کے بادشاہ فرعون کے ایک اعلیٰ افسر فوطی فار نے اُسے خرید لیا۔ فوطی فار بادشاہ کے محافظوں پر مقرر تھا۔