پَیدایش 43
بن یمین کے ہمراہ دوسرا سفر
1کال نے زور پکڑا۔ 2جب مصر سے لایا گیا اناج ختم ہو گیا تو یعقوب نے کہا، ”اب واپس جا کر ہمارے لئے کچھ اَور غلہ خرید لاؤ۔“ 3لیکن یہوداہ نے کہا، ”اُس مرد نے سختی سے کہا تھا، ’تم صرف اِس صورت میں میرے پاس آ سکتے ہو کہ تمہارا بھائی ساتھ ہو۔‘ 4اگر آپ ہمارے بھائی کو ساتھ بھیجیں تو پھر ہم جا کر آپ کے لئے غلہ خریدیں گے 5ورنہ نہیں۔ کیونکہ اُس آدمی نے کہا تھا کہ ہم صرف اِس صورت میں اُس کے پاس آ سکتے ہیں کہ ہمارا بھائی ساتھ ہو۔“ 6یعقوب نے کہا، ”تم نے اُسے کیوں بتایا کہ ہمارا ایک اَور بھائی بھی ہے؟ اِس سے تم نے مجھے بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔“ 7اُنہوں نے جواب دیا، ”وہ آدمی ہمارے اور ہمارے خاندان کے بارے میں پوچھتا رہا، ’کیا تمہارا باپ اب تک زندہ ہے؟ کیا تمہارا کوئی اَور بھائی ہے؟‘ پھر ہمیں جواب دینا پڑا۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ وہ ہمیں اپنے بھائی کو ساتھ لانے کو کہے گا۔“ 8پھر یہوداہ نے باپ سے کہا، ”لڑکے کو میرے ساتھ بھیج دیں تو ہم ابھی روانہ ہو جائیں گے۔ ورنہ آپ، ہمارے بچے بلکہ ہم سب بھوکوں مر جائیں گے۔ 9مَیں خود اُس کا ضامن ہوں گا۔ آپ مجھے اُس کی جان کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔ اگر مَیں اُسے سلامتی سے واپس نہ پہنچاؤں تو پھر مَیں زندگی کے آخر تک قصوروار ٹھہروں گا۔ 10جتنی دیر تک ہم جھجکتے رہے ہیں اُتنی دیر میں تو ہم دو دفعہ مصر جا کر واپس آ سکتے تھے۔“
11تب اُن کے باپ اسرائیل نے کہا، ”اگر اَور کوئی صورت نہیں تو اِس ملک کی بہترین پیداوار میں سے کچھ تحفے کے طور پر لے کر اُس آدمی کو دے دو یعنی کچھ بلسان، شہد، لادن، مُر، پستہ اور بادام۔ 12اپنے ساتھ دُگنی رقم لے کر جاؤ، کیونکہ تمہیں وہ پیسے واپس کرنے ہیں جو تمہاری بوریوں میں رکھے گئے تھے۔ شاید کسی سے غلطی ہوئی ہو۔ 13اپنے بھائی کو لے کر سیدھے واپس پہنچنا۔ 14اللہ قادرِ مطلق کرے کہ یہ آدمی تم پر رحم کر کے بن یمین اور تمہارے دوسرے بھائی کو واپس بھیجے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، اگر مجھے اپنے بچوں سے محروم ہونا ہے تو ایسا ہی ہو۔“
15چنانچہ وہ تحفے، دُگنی رقم اور بن یمین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ مصر پہنچ کر وہ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے۔ 16جب یوسف نے بن یمین کو اُن کے ساتھ دیکھا تو اُس نے اپنے گھر پر مقرر ملازم سے کہا، ”اِن آدمیوں کو میرے گھر لے جاؤ تاکہ وہ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھائیں۔ جانور کو ذبح کر کے کھانا تیار کرو۔“
17ملازم نے ایسا ہی کیا اور بھائیوں کو یوسف کے گھر لے گیا۔ 18جب اُنہیں اُس کے گھر پہنچایا جا رہا تھا تو وہ ڈر کر سوچنے لگے، ”ہمیں اُن پیسوں کے سبب سے یہاں لایا جا رہا ہے جو پہلی دفعہ ہماری بوریوں میں واپس کئے گئے تھے۔ وہ ہم پر اچانک حملہ کر کے ہمارے گدھے چھین لیں گے اور ہمیں غلام بنا لیں گے۔“
19اِس لئے گھر کے دروازے پر پہنچ کر اُنہوں نے گھر پر مقرر ملازم سے کہا، 20”جنابِ عالی، ہماری بات سن لیجئے۔ اِس سے پہلے ہم اناج خریدنے کے لئے یہاں آئے تھے۔ 21لیکن جب ہم یہاں سے روانہ ہو کر راستے میں رات کے لئے ٹھہرے تو ہم نے اپنی بوریاں کھول کر دیکھا کہ ہر بوری کے منہ میں ہمارے پیسوں کی پوری رقم پڑی ہے۔ ہم یہ پیسے واپس لے آئے ہیں۔ 22نیز، ہم مزید خوراک خریدنے کے لئے اَور پیسے لے آئے ہیں۔ خدا جانے کس نے ہمارے یہ پیسے ہماری بوریوں میں رکھ دیئے۔“
23ملازم نے کہا، ”فکر نہ کریں۔ مت ڈریں۔ آپ کے اور آپ کے باپ کے خدا نے آپ کے لئے آپ کی بوریوں میں یہ خزانہ رکھا ہو گا۔ بہرحال مجھے آپ کے پیسے مل گئے ہیں۔“
ملازم شمعون کو اُن کے پاس باہر لے آیا۔ 24پھر اُس نے بھائیوں کو یوسف کے گھر میں لے جا کر اُنہیں پاؤں دھونے کے لئے پانی اور گدھوں کو چارا دیا۔ 25اُنہوں نے اپنے تحفے تیار رکھے، کیونکہ اُنہیں بتایا گیا، ”یوسف دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ ہی کھائے گا۔“
26جب یوسف گھر پہنچا تو وہ اپنے تحفے لے کر اُس کے سامنے آئے اور منہ کے بل جھک گئے۔ 27اُس نے اُن سے خیریت دریافت کی اور پھر کہا، ”تم نے اپنے بوڑھے باپ کا ذکر کیا۔ کیا وہ ٹھیک ہیں؟ کیا وہ اب تک زندہ ہیں؟“ 28اُنہوں نے جواب دیا، ”جی، آپ کے خادم ہمارے باپ اب تک زندہ ہیں۔“ وہ دوبارہ منہ کے بل جھک گئے۔
29جب یوسف نے اپنے سگے بھائی بن یمین کو دیکھا تو اُس نے کہا، ”کیا یہ تمہارا سب سے چھوٹا بھائی ہے جس کا تم نے ذکر کیا تھا؟ بیٹا، اللہ کی نظرِ کرم تم پر ہو۔“ 30یوسف اپنے بھائی کو دیکھ کر اِتنا متاثر ہوا کہ وہ رونے کو تھا، اِس لئے وہ جلدی سے وہاں سے نکل کر اپنے سونے کے کمرے میں گیا اور رو پڑا۔ 31پھر وہ اپنا منہ دھو کر واپس آیا۔ اپنے آپ پر قابو پا کر اُس نے حکم دیا کہ نوکر کھانا لے آئیں۔
32نوکروں نے یوسف کے لئے کھانے کا الگ انتظام کیا اور بھائیوں کے لئے الگ۔ مصریوں کے لئے بھی کھانے کا الگ انتظام تھا، کیونکہ عبرانیوں کے ساتھ کھانا کھانا اُن کی نظر میں قابلِ نفرت تھا۔ 33بھائیوں کو اُن کی عمر کی ترتیب کے مطابق یوسف کے سامنے بٹھایا گیا۔ یہ دیکھ کر بھائی نہایت حیران ہوئے۔ 34نوکروں نے اُنہیں یوسف کی میز پر سے کھانا لے کر کھلایا۔ لیکن بن یمین کو دوسروں کی نسبت پانچ گُنا زیادہ ملا۔ یوں اُنہوں نے یوسف کے ساتھ جی بھر کر کھایا اور پیا۔