یوحنا 19
1پھر پیلاطس نے عیسیٰ کو کوڑے لگوائے۔ 2فوجیوں نے کانٹےدار ٹہنیوں کا ایک تاج بنا کر اُس کے سر پر رکھ دیا۔ اُنہوں نے اُسے ارغوانی رنگ کا لباس بھی پہنایا۔ 3پھر اُس کے سامنے آ کر وہ کہتے، ”اے یہودیوں کے بادشاہ، آداب!“ اور اُسے تھپڑ مارتے تھے۔
4ایک بار پھر پیلاطس نکل آیا اور یہودیوں سے بات کرنے لگا، ”دیکھو، مَیں اِسے تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں تاکہ تم جان لو کہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“ 5پھر عیسیٰ کانٹےدار تاج اور ارغوانی رنگ کا لباس پہنے باہر آیا۔ پیلاطس نے اُن سے کہا، ”لو یہ ہے وہ آدمی۔“
6اُسے دیکھتے ہی راہنما امام اور اُن کے ملازم چیخنے لگے، ”اِسے مصلوب کریں، اِسے مصلوب کریں!“
پیلاطس نے اُن سے کہا، ”تم ہی اِسے لے جا کر مصلوب کرو۔ کیونکہ مجھے اِسے مجرم ٹھہرانے کی کوئی وجہ نہیں ملی۔“
7یہودیوں نے اصرار کیا، ”ہمارے پاس شریعت ہے اور اِس شریعت کے مطابق لازم ہے کہ وہ مارا جائے۔ کیونکہ اِس نے اپنے آپ کو اللہ کا فرزند قرار دیا ہے۔“
8یہ سن کر پیلاطس مزید ڈر گیا۔ 9دوبارہ محل میں جا کر عیسیٰ سے پوچھا، ”تم کہاں سے آئے ہو؟“
لیکن عیسیٰ خاموش رہا۔ 10پیلاطس نے اُس سے کہا، ”اچھا، تم میرے ساتھ بات نہیں کرتے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مجھے تمہیں رِہا کرنے اور مصلوب کرنے کا اختیار ہے؟“
11عیسیٰ نے جواب دیا، ”آپ کو مجھ پر اختیار نہ ہوتا اگر وہ آپ کو اوپر سے نہ دیا گیا ہوتا۔ اِس وجہ سے اُس شخص سے زیادہ سنگین گناہ ہوا ہے جس نے مجھے دشمن کے حوالے کر دیا ہے۔“
12اِس کے بعد پیلاطس نے اُسے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہودی چیخ چیخ کر کہنے لگے، ”اگر آپ اِسے رِہا کریں تو آپ رومی شہنشاہ قیصر کے دوست ثابت نہیں ہوں گے۔ جو بھی بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرے وہ شہنشاہ کی مخالفت کرتا ہے۔“
13اِس طرح کی باتیں سن کر پیلاطس عیسیٰ کو باہر لے آیا۔ پھر وہ جج کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اُس جگہ کا نام ”پچی کاری“ تھا۔ (اَرامی زبان میں وہ گبتا کہلاتی تھی۔) 14اب دوپہر کے تقریباً بارہ بج گئے تھے۔ اُس دن عید کے لئے تیاریاں کی جاتی تھیں، کیونکہ اگلے دن عید کا آغاز تھا۔ پیلاطس بول اُٹھا، ”لو، تمہارا بادشاہ!“
15لیکن وہ چلّاتے رہے، ”لے جائیں اِسے، لے جائیں! اِسے مصلوب کریں!“
پیلاطس نے سوال کیا، ”کیا مَیں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھاؤں؟“
راہنما اماموں نے جواب دیا، ”سوائے شہنشاہ کے ہمارا کوئی بادشاہ نہیں ہے۔“
16پھر پیلاطس نے عیسیٰ کو اُن کے حوالے کر دیا تاکہ اُسے مصلوب کیا جائے۔
عیسیٰ کو مصلوب کیا جاتا ہے
چنانچہ وہ عیسیٰ کو لے کر چلے گئے۔ 17وہ اپنی صلیب اُٹھائے شہر سے نکلا اور اُس جگہ پہنچا جس کا نام کھوپڑی (اَرامی زبان میں گلگتا) تھا۔ 18وہاں اُنہوں نے اُسے صلیب پر چڑھا دیا۔ ساتھ ساتھ اُنہوں نے اُس کے بائیں اور دائیں ہاتھ دو اَور آدمیوں کو مصلوب کیا۔ 19پیلاطس نے ایک تختی بنوا کر اُسے عیسیٰ کی صلیب پر لگوا دیا۔ تختی پر لکھا تھا، ’عیسیٰ ناصری، یہودیوں کا بادشاہ۔‘ 20بہت سے یہودیوں نے یہ پڑھ لیا، کیونکہ مصلوبیت کا مقام شہر کے قریب تھا اور یہ جملہ اَرامی، لاطینی اور یونانی زبانوں میں لکھا تھا۔ 21یہ دیکھ کر یہودیوں کے راہنما اماموں نے اعتراض کیا، ”’یہودیوں کا بادشاہ‘ نہ لکھیں بلکہ یہ کہ ’اِس آدمی نے یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا‘۔“
22پیلاطس نے جواب دیا، ”جو کچھ مَیں نے لکھ دیاسو لکھ دیا۔“
23عیسیٰ کو صلیب پر چڑھانے کے بعد فوجیوں نے اُس کے کپڑے لے کر چار حصوں میں بانٹ لئے، ہر فوجی کے لئے ایک حصہ۔ لیکن چوغہ بےجوڑ تھا۔ وہ اوپر سے لے کر نیچے تک بُنا ہوا ایک ہی ٹکڑے کا تھا۔ 24اِس لئے فوجیوں نے کہا، ”آؤ، اِسے پھاڑ کر تقسیم نہ کریں بلکہ اِس پر قرعہ ڈالیں۔“ یوں کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی، ”اُنہوں نے آپس میں میرے کپڑے بانٹ لئے اور میرے لباس پر قرعہ ڈالا۔“ فوجیوں نے یہی کچھ کیا۔
25کچھ خواتین بھی عیسیٰ کی صلیب کے قریب کھڑی تھیں: اُس کی ماں، اُس کی خالہ، کلوپاس کی بیوی مریم اور مریم مگدلینی۔ 26جب عیسیٰ نے اپنی ماں کو اُس شاگرد کے ساتھ کھڑے دیکھا جو اُسے پیارا تھا تو اُس نے کہا، ”اے خاتون، دیکھیں آپ کا بیٹا یہ ہے۔“
27اور اُس شاگرد سے اُس نے کہا، ”دیکھ، تیری ماں یہ ہے۔“ اُس وقت سے اُس شاگرد نے عیسیٰ کی ماں کو اپنے گھر رکھا۔
عیسیٰ کی موت
28اِس کے بعد جب عیسیٰ نے جان لیا کہ میرا مشن تکمیل تک پہنچ چکا ہے تو اُس نے کہا، ”مجھے پیاس لگی ہے۔“ (اِس سے بھی کلامِ مُقدّس کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔)
29قریب مَے کے سرکے سے بھرا برتن پڑا تھا۔ اُنہوں نے ایک اسپنج سرکے میں ڈبو کر اُسے زوفے کی شاخ پر لگا دیا اور اُٹھا کر عیسیٰ کے منہ تک پہنچایا۔ 30یہ سرکہ پینے کے بعد عیسیٰ بول اُٹھا، ”کام مکمل ہو گیا ہے۔“ اور سر جھکا کر اُس نے اپنی جان اللہ کے سپرد کر دی۔
عیسیٰ کا پہلو چھیدا جاتا ہے
31فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن عید کا آغاز اور ایک خاص سبت تھا۔ اِس لئے یہودی نہیں چاہتے تھے کہ مصلوب ہوئی لاشیں اگلے دن تک صلیبوں پر لٹکی رہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے پیلاطس سے گزارش کی کہ وہ اُن کی ٹانگیں تڑوا کر اُنہیں صلیبوں سے اُتارنے دے۔ 32تب فوجیوں نے آ کر عیسیٰ کے ساتھ مصلوب کئے جانے والے آدمیوں کی ٹانگیں توڑ دیں، پہلے ایک کی پھر دوسرے کی۔ 33جب وہ عیسیٰ کے پاس آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ وہ فوت ہو چکا ہے، اِس لئے اُنہوں نے اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ 34اِس کے بجائے ایک نے نیزے سے عیسیٰ کا پہلو چھید دیا۔ زخم سے فوراً خون اور پانی بہہ نکلا۔ 35(جس نے یہ دیکھا ہے اُس نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ حقیقت بیان کر رہا ہے اور اُس کی گواہی کا مقصد یہ ہے کہ آپ بھی ایمان لائیں۔) 36یہ یوں ہوا تاکہ کلامِ مُقدّس کی یہ پیش گوئی پوری ہو جائے، ”اُس کی ایک ہڈی بھی توڑی نہیں جائے گی۔“ 37کلامِ مُقدّس میں یہ بھی لکھا ہے، ”وہ اُس پر نظر ڈالیں گے جسے اُنہوں نے چھیدا ہے۔“
عیسیٰ کو دفنایا جاتا ہے
38بعد میں ارمتیہ کے رہنے والے یوسف نے پیلاطس سے عیسیٰ کی لاش اُتارنے کی اجازت مانگی۔ (یوسف عیسیٰ کا خفیہ شاگرد تھا، کیونکہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا۔) اِس کی اجازت ملنے پر وہ آیا اور لاش کو اُتار لیا۔ 39نیکدیمس بھی ساتھ تھا، وہ آدمی جو گزرے دنوں میں رات کے وقت عیسیٰ سے ملنے آیا تھا۔ نیکدیمس اپنے ساتھ مُر اور عود کی تقریباً 34 کلو گرام خوشبو لے کر آیا تھا۔ 40یہودی جنازے کی رسومات کے مطابق اُنہوں نے لاش پر خوشبو لگا کر اُسے پٹیوں سے لپیٹ دیا۔ 41صلیبوں کے قریب ایک باغ تھا اور باغ میں ایک نئی قبر تھی جو اب تک استعمال نہیں کی گئی تھی۔ 42اُس کے قریب ہونے کے سبب سے اُنہوں نے عیسیٰ کو اُس میں رکھ دیا، کیونکہ فسح کی تیاری کا دن تھا اور اگلے دن عید کا آغاز تھا۔