یوحنا 6
عیسیٰ بڑے ہجوم کو کھانا کھلاتا ہے
1اِس کے بعد عیسیٰ نے گلیل کی جھیل کو پار کیا۔ (جھیل کا دوسرا نام تبریاس تھا۔) 2ایک بڑا ہجوم اُس کے پیچھے لگ گیا تھا، کیونکہ اُس نے الٰہی نشان دکھا کر مریضوں کو شفا دی تھی اور لوگوں نے اِس کا مشاہدہ کیا تھا۔ 3پھر عیسیٰ پہاڑ پر چڑھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ 4(یہودی عیدِ فسح قریب آ گئی تھی۔) 5وہاں بیٹھے عیسیٰ نے اپنی نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم پہنچ رہا ہے۔ اُس نے فلپّس سے پوچھا، ”ہم کہاں سے کھانا خریدیں تاکہ اُنہیں کھلائیں؟“ 6(یہ اُس نے فلپّس کو آزمانے کے لئے کہا۔ خود تو وہ جانتا تھا کہ کیا کرے گا۔)
7فلپّس نے جواب دیا، ”اگر ہر ایک کو صرف تھوڑا سا ملے توبھی چاندی کے 200 سِکے کافی نہیں ہوں گے۔“
8پھر شمعون پطرس کا بھائی اندریاس بول اُٹھا، 9”یہاں ایک لڑکا ہے جس کے پاس جَو کی پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔ مگر اِتنے لوگوں میں یہ کیا ہیں!“
10عیسیٰ نے کہا، ”لوگوں کو بٹھا دو۔“ اُس جگہ بہت گھاس تھی۔ چنانچہ سب بیٹھ گئے۔ (صرف مردوں کی تعداد 5,000 تھی۔) 11عیسیٰ نے روٹیاں لے کر شکرگزاری کی دعا کی اور اُنہیں بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کروایا۔ یہی کچھ اُس نے مچھلیوں کے ساتھ بھی کیا۔ اور سب نے جی بھر کر روٹی کھائی۔ 12جب سب سیر ہو گئے تو عیسیٰ نے شاگردوں کو بتایا، ”اب بچے ہوئے ٹکڑے جمع کرو تاکہ کچھ ضائع نہ ہو جائے۔“ 13جب اُنہوں نے بچا ہوا کھانا اکٹھا کیا تو جَو کی پانچ روٹیوں کے ٹکڑوں سے بارہ ٹوکرے بھر گئے۔
14جب لوگوں نے عیسیٰ کو یہ الٰہی نشان دکھاتے دیکھا تو اُنہوں نے کہا، ”یقیناً یہ وہی نبی ہے جسے دنیا میں آنا تھا۔“ 15عیسیٰ کو معلوم ہوا کہ وہ آ کر اُسے زبردستی بادشاہ بنانا چاہتے ہیں، اِس لئے وہ دوبارہ اُن سے الگ ہو کر اکیلا ہی کسی پہاڑ پر چڑھ گیا۔
عیسیٰ پانی پر چلتا ہے
16شام کو شاگرد جھیل کے پاس گئے 17اور کشتی پر سوار ہو کر جھیل کے پار شہر کفرنحوم کے لئے روانہ ہوئے۔ اندھیرا ہو چکا تھا اور عیسیٰ اب تک اُن کے پاس واپس نہیں آیا تھا۔ 18تیز ہَوا کے باعث جھیل میں لہریں اُٹھنے لگیں۔ 19کشتی کو کھیتے کھیتے شاگرد چار یا پانچ کلو میٹر کا سفر طے کر چکے تھے کہ اچانک عیسیٰ نظر آیا۔ وہ پانی پر چلتا ہوا کشتی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شاگرد دہشت زدہ ہو گئے۔ 20لیکن اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں ہی ہوں۔ خوف نہ کرو۔“ 21وہ اُسے کشتی میں بٹھانے پر آمادہ ہوئے۔ اور کشتی اُسی لمحے اُس جگہ پہنچ گئی جہاں وہ جانا چاہتے تھے۔
لوگ عیسیٰ کو ڈھونڈتے ہیں
22ہجوم تو جھیل کے پار رہ گیا تھا۔ اگلے دن لوگوں کو پتا چلا کہ شاگرد ایک ہی کشتی لے کر چلے گئے ہیں اور کہ اُس وقت عیسیٰ کشتی میں نہیں تھا۔ 23پھر کچھ کشتیاں تبریاس سے اُس مقام کے قریب پہنچیں جہاں خداوند عیسیٰ نے روٹی کے لئے شکرگزاری کی دعا کر کے اُسے لوگوں کو کھلایا تھا۔ 24جب لوگوں نے دیکھا کہ نہ عیسیٰ اور نہ اُس کے شاگرد وہاں ہیں تو وہ کشتیوں پر سوار ہو کر عیسیٰ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کفرنحوم پہنچے۔
عیسیٰ زندگی کی روٹی ہے
25جب اُنہوں نے اُسے جھیل کے پار پایا تو پوچھا، ”اُستاد، آپ کس طرح یہاں پہنچ گئے؟“
26عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈ رہے کہ الٰہی نشان دیکھے ہیں بلکہ اِس لئے کہ تم نے جی بھر کر روٹی کھائی ہے۔ 27ایسی خوراک کے لئے جد و جہد نہ کرو جو گل سڑجاتی ہے، بلکہ ایسی کے لئے جو ابدی زندگی تک قائم رہتی ہے اور جو ابنِ آدم تم کو دے گا، کیونکہ خدا باپ نے اُس پر اپنی تصدیق کی مُہر لگائی ہے۔“
28اِس پر اُنہوں نے پوچھا، ”ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ اللہ کا مطلوبہ کام کریں؟“
29عیسیٰ نے جواب دیا، ”اللہ کا کام یہ ہے کہ تم اُس پر ایمان لاؤ جسے اُس نے بھیجا ہے۔“
30اُنہوں نے کہا، ”تو پھر آپ کیا الٰہی نشان دکھائیں گے جسے دیکھ کر ہم آپ پر ایمان لائیں؟ آپ کیا کام سرانجام دیں گے؟ 31ہمارے باپ دادا نے تو ریگستان میں مَن کھایا۔ چنانچہ کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ موسیٰ نے اُنہیں آسمان سے روٹی کھلائی۔“
32عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ خود موسیٰ نے تم کو آسمان سے روٹی نہیں کھلائی بلکہ میرے باپ نے۔ وہی تم کو آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے۔ 33کیونکہ اللہ کی روٹی وہ شخص ہے جو آسمان پر سے اُتر کر دنیا کو زندگی بخشتا ہے۔“
34اُنہوں نے کہا، ”خداوند، ہمیں یہ روٹی ہر وقت دیا کریں۔“
35جواب میں عیسیٰ نے کہا، ”مَیں ہی زندگی کی روٹی ہوں۔ جو میرے پاس آئے اُسے پھر کبھی بھوک نہیں لگے گی۔ اور جو مجھ پر ایمان لائے اُسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ 36لیکن جس طرح مَیں تم کو بتا چکا ہوں، تم نے مجھے دیکھا اور پھر بھی ایمان نہیں لائے۔ 37جتنے بھی باپ نے مجھے دیئے ہیں وہ میرے پاس آئیں گے اور جو بھی میرے پاس آئے گا اُسے مَیں ہرگز نکال نہ دوں گا۔ 38کیونکہ مَیں اپنی مرضی پوری کرنے کے لئے آسمان سے نہیں اُترا بلکہ اُس کی جس نے مجھے بھیجا ہے۔ 39اور جس نے مجھے بھیجا اُس کی مرضی یہ ہے کہ جتنے بھی اُس نے مجھے دیئے ہیں اُن میں سے مَیں ایک کو بھی کھو نہ دوں بلکہ سب کو قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں۔ 40کیونکہ میرے باپ کی مرضی یہی ہے کہ جو بھی فرزند کو دیکھ کر اُس پر ایمان لائے اُسے ابدی زندگی حاصل ہو۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔“
41یہ سن کر یہودی اِس لئے بڑبڑانے لگے کہ اُس نے کہا تھا، ”مَیں ہی وہ روٹی ہوں جو آسمان پر سے اُتر آئی ہے۔“ 42اُنہوں نے اعتراض کیا، ”کیا یہ عیسیٰ بن یوسف نہیں، جس کے باپ اور ماں سے ہم واقف ہیں؟ وہ کیونکر کہہ سکتا ہے کہ ’مَیں آسمان سے اُترا ہوں‘؟“
43عیسیٰ نے جواب میں کہا، ”آپس میں مت بڑبڑاؤ۔ 44صرف وہ شخص میرے پاس آ سکتا ہے جسے باپ جس نے مجھے بھیجا ہے میرے پاس کھینچ لایا ہے۔ ایسے شخص کو مَیں قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔ 45نبیوں کے صحیفوں میں لکھا ہے، ’سب اللہ سے تعلیم پائیں گے۔‘ جو بھی اللہ کی سن کر اُس سے سیکھتا ہے وہ میرے پاس آ جاتا ہے۔ 46اِس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی نے کبھی باپ کو دیکھا۔ صرف ایک ہی نے باپ کو دیکھا ہے، وہی جو اللہ کی طرف سے ہے۔ 47مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ جو ایمان رکھتا ہے اُسے ابدی زندگی حاصل ہے۔ 48زندگی کی روٹی مَیں ہوں۔ 49تمہارے باپ دادا ریگستان میں مَن کھاتے رہے، توبھی وہ مر گئے۔ 50لیکن یہاں آسمان سے اُترنے والی ایسی روٹی ہے جسے کھا کر انسان نہیں مرتا۔ 51مَیں ہی زندگی کی وہ روٹی ہوں جو آسمان سے اُتر آئی ہے۔ جو اِس روٹی سے کھائے وہ ابد تک زندہ رہے گا۔ اور یہ روٹی میرا گوشت ہے جو مَیں دنیا کو زندگی مہیا کرنے کی خاطر پیش کروں گا۔“ 52یہودی بڑی سرگرمی سے ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے، ”یہ آدمی ہمیں کس طرح اپنا گوشت کھلا سکتا ہے؟“
53عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ صرف ابنِ آدم کا گوشت کھانے اور اُس کا خون پینے ہی سے تم میں زندگی ہو گی۔ 54جو میرا گوشت کھائے اور میرا خون پیئے ابدی زندگی اُس کی ہے اور مَیں اُسے قیامت کے دن مُردوں میں سے پھر زندہ کروں گا۔ 55کیونکہ میرا گوشت حقیقی خوراک اور میرا خون حقیقی پینے کی چیز ہے۔ 56جو میرا گوشت کھاتا اور میرا خون پیتا ہے وہ مجھ میں قائم رہتا ہے اور مَیں اُس میں۔ 57مَیں اُس زندہ باپ کی وجہ سے زندہ ہوں جس نے مجھے بھیجا۔ اِسی طرح جو مجھے کھاتا ہے وہ میری ہی وجہ سے زندہ رہے گا۔ 58یہی وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتری ہے۔ تمہارے باپ دادا مَن کھانے کے باوجود مر گئے، لیکن جو یہ روٹی کھائے گا وہ ابد تک زندہ رہے گا۔“
59عیسیٰ نے یہ باتیں اُس وقت کیں جب وہ کفرنحوم میں یہودی عبادت خانے میں تعلیم دے رہا تھا۔
ابدی زندگی کی باتیں
60یہ سن کر اُس کے بہت سے شاگردوں نے کہا، ”یہ باتیں ناگوار ہیں۔ کون اِنہیں سن سکتا ہے!“
61عیسیٰ کو معلوم تھا کہ میرے شاگرد میرے بارے میں بڑبڑا رہے ہیں، اِس لئے اُس نے کہا، ”کیا تم کو اِن باتوں سے ٹھیس لگی ہے؟ 62تو پھر تم کیا سوچو گے جب ابنِ آدم کو اوپر جاتے دیکھو گے جہاں وہ پہلے تھا؟ 63اللہ کا روح ہی زندہ کرتا ہے جبکہ جسمانی طاقت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جو باتیں مَیں نے تم کو بتائی ہیں وہ روح اور زندگی ہیں۔ 64لیکن تم میں سے کچھ ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔“ (عیسیٰ تو شروع سے ہی جانتا تھا کہ کون کون ایمان نہیں رکھتے اور کون مجھے دشمن کے حوالے کرے گا۔) 65پھر اُس نے کہا، ”اِس لئے مَیں نے تم کو بتایا کہ صرف وہ شخص میرے پاس آ سکتا ہے جسے باپ کی طرف سے یہ توفیق ملے۔“
66اُس وقت سے اُس کے بہت سے شاگرد اُلٹے پاؤں پھر گئے اور آئندہ کو اُس کے ساتھ نہ چلے۔ 67تب عیسیٰ نے بارہ شاگردوں سے پوچھا، ”کیا تم بھی چلے جانا چاہتے ہو؟“
68شمعون پطرس نے جواب دیا، ”خداوند، ہم کس کے پاس جائیں؟ ابدی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کے پاس ہیں۔ 69اور ہم نے ایمان لا کر جان لیا ہے کہ آپ اللہ کے قدوس ہیں۔“
70جواب میں عیسیٰ نے کہا، ”کیا مَیں نے تم بارہ کو نہیں چنا؟ توبھی تم میں سے ایک شخص شیطان ہے۔“ 71(وہ شمعون اسکریوتی کے بیٹے یہوداہ کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا اور جس نے بعد میں اُسے دشمن کے حوالے کر دیا۔