متی 16
فریسی الٰہی نشان کا تقاضا کرتے ہیں
1ایک دن فریسی اور صدوقی عیسیٰ کے پاس آئے۔ اُسے پرکھنے کے لئے اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ اُنہیں آسمان کی طرف سے کوئی الٰہی نشان دکھائے تاکہ اُس کا اختیار ثابت ہو جائے۔ 2لیکن اُس نے جواب دیا، ”شام کو تم کہتے ہو، ’کل موسم صاف ہو گا کیونکہ آسمان سرخ نظر آتا ہے۔‘ 3اور صبح کے وقت کہتے ہو، ’آج طوفان ہو گا کیونکہ آسمان سرخ ہے اور بادل چھائے ہوئے ہیں۔‘ غرض تم آسمان کی حالت پر غور کر کے صحیح نتیجہ نکال لیتے ہو، لیکن زمانوں کی علامتوں پر غور کر کے صحیح نتیجے تک پہنچنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ 4صرف شریر اور زناکار نسل الٰہی نشان کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن اُسے کوئی بھی الٰہی نشان پیش نہیں کیا جائے گا سوائے یونس نبی کے نشان کے۔“
یہ کہہ کر عیسیٰ اُنہیں چھوڑ کر چلا گیا۔
فریسیوں اور صدوقیوں کا خمیر
5جھیل کو پار کرتے وقت شاگرد اپنے ساتھ کھانا لانا بھول گئے تھے۔ 6عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”خبردار، فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے ہوشیار رہنا۔“
7شاگرد آپس میں بحث کرنے لگے، ”وہ اِس لئے کہہ رہے ہوں گے کہ ہم کھانا ساتھ نہیں لائے۔“
8عیسیٰ کو معلوم ہوا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ اُس نے کہا، ”تم آپس میں کیوں بحث کر رہے ہو کہ ہمارے پاس روٹی نہیں ہے؟ 9کیا تم ابھی تک نہیں سمجھتے؟ کیا تمہیں یاد نہیں کہ مَیں نے پانچ روٹیاں لے کر 5,000 آدمیوں کو کھانا کھلا دیا اور کہ تم نے بچے ہوئے ٹکڑوں کے کتنے ٹوکرے اُٹھائے تھے؟ 10یا کیا تم بھول گئے ہو کہ مَیں نے سات روٹیاں لے کر 4,000 آدمیوں کو کھانا کھلایا اور کہ تم نے بچے ہوئے ٹکڑوں کے کتنے ٹوکرے اُٹھائے تھے؟ 11تم کیوں نہیں سمجھتے کہ مَیں تم سے کھانے کی بات نہیں کر رہا؟ سنو میری بات! فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے ہوشیار رہو!“
12پھر اُنہیں سمجھ آئی کہ عیسیٰ اُنہیں روٹی کے خمیر سے آگاہ نہیں کر رہا تھا بلکہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تعلیم سے۔
پطرس کا اقرار
13جب عیسیٰ قیصریہ فلپی کے علاقے میں پہنچا تو اُس نے شاگردوں سے پوچھا، ”ابنِ آدم لوگوں کے نزدیک کون ہے؟“
14اُنہوں نے جواب دیا، ”کچھ کہتے ہیں یحییٰ بپتسمہ دینے والا، کچھ یہ کہ آپ الیاس نبی ہیں۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یرمیاہ یا نبیوں میں سے ایک۔“
15اُس نے پوچھا، ”لیکن تمہارے نزدیک مَیں کون ہوں؟“
16پطرس نے جواب دیا، ”آپ زندہ خدا کے فرزند مسیح ہیں۔“
17عیسیٰ نے کہا، ”شمعون بن یونس، تُو مبارک ہے، کیونکہ کسی انسان نے تجھ پر یہ ظاہر نہیں کیا بلکہ میرے آسمانی باپ نے۔ 18مَیں تجھے یہ بھی بتاتا ہوں کہ تُو پطرس یعنی پتھرہے، اور اِسی پتھر پر مَیں اپنی جماعت کو تعمیر کروں گا، ایسی جماعت جس پر پاتال کے دروازے بھی غالب نہیں آئیں گے۔ 19مَیں تجھے آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں دے دوں گا۔ جو کچھ تُو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بھی بندھے گا۔ اور جو کچھ تُو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر بھی کھلے گا۔“
20پھر عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا، ”کسی کو بھی نہ بتاؤ کہ مَیں مسیح ہوں۔“
عیسیٰ اپنی موت کا ذکر کرتا ہے
21اُس وقت سے عیسیٰ اپنے شاگردوں پر واضح کرنے لگا، ”لازم ہے کہ مَیں یروشلم جا کر قوم کے بزرگوں، راہنما اماموں اور شریعت کے علما کے ہاتھوں بہت دُکھ اُٹھاؤں۔ مجھے قتل کیا جائے گا، لیکن تیسرے دن مَیں جی اُٹھوں گا۔“
22اِس پر پطرس اُسے ایک طرف لے جا کر سمجھانے لگا۔ ”اے خداوند، اللہ نہ کرے کہ یہ کبھی بھی آپ کے ساتھ ہو۔“
23عیسیٰ نے مُڑ کر پطرس سے کہا، ”شیطان، میرے سامنے سے ہٹ جا! تُو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے، کیونکہ تُو اللہ کی سوچ نہیں رکھتا بلکہ انسان کی۔“
24پھر عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”جو میرے پیچھے آنا چاہے وہ اپنے آپ کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھا کر میرے پیچھے ہو لے۔ 25کیونکہ جو اپنی جان کو بچائے رکھنا چاہے وہ اُسے کھو دے گا۔ لیکن جو میری خاطر اپنی جان کھو دے وہی اُسے پا لے گا۔ 26کیا فائدہ ہے اگر کسی کو پوری دنیا حاصل ہو جائے، لیکن وہ اپنی جان سے محروم ہو جائے؟ انسان اپنی جان کے بدلے کیا دے سکتا ہے؟ 27کیونکہ ابنِ آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا، اور اُس وقت وہ ہر ایک کو اُس کے کام کا بدلہ دے گا۔ 28مَیں تمہیں سچ بتاتا ہوں، یہاں کچھ ایسے لوگ کھڑے ہیں جو مرنے سے پہلے ہی ابنِ آدم کو اُس کی بادشاہی میں آتے ہوئے دیکھیں گے۔“